قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا 02 - Urdu Jahan

Urdu Jahah is all about URDU

Sunday, April 5, 2020

قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا 02

قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا

قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا 02

سیمیوئل اسمائلز کا استدلال تھا کہ بھرپور کامیابی کے لئے صلاحیت بنیادی شرائط میں سے ہے، مگر کمتر صلاحیت بھی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ صلاحیت کا گراف زیادہ بلند نہ ہو تب بھی انسان بھرپور لگن اور انتھک محنت کے ذریعے کسی بھی مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ اسمائلز نے جارج لوئی بفون کے بارے میں بھی لکھا جس نے فطرت کی تاریخ چوالیس جلدوں میں لکھی۔ اس کتاب میں اپنے موضوع پر اس وقت تک کے علم کا بھرپور احاطہ کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے عمیق مطالعے سے چارلس ڈارون کو بھی ”اصل الانواع“ لکھنے میں مدد ملی۔ اسمائلز نے اپنے دور کی نمایاں شخصیات کو کتاب کا حصہ بنایا۔ ان میں سے متعدد شخصیات کو اب لوگ بھول بھال گئے ہیں۔ جو لوگ گزرے ہوئے زمانوں کی نمایاں شخصیات سے ملاقات کے خواہش مند ہیں وہ بھی اس کتاب سے بہتر طور پر مستفید ہوسکتے ہیں۔ 
ڈی میسترے نے کہا تھا کہ انسان اگر انتظار اور صبر کرنا سیکھ لے تو کامیابی کا راز پاسکتا ہے۔ لوگ بے صبری کے ہاتھوں برباد ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں بے صبری پوری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ کسی بھی عمل کا نتیجہ برآمد ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ سر آئزک نیوٹن نے بھی کامیابی کے لئے انہماک اور مستقل مزاجی کا ناگزیر قرار دیا ہے۔ کسی بھی دور میں اور کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ذہن کو منظم رکھتے ہیں اور اپنے کام میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ کسی اور چیز کا انہیں دھیان ہی نہیں رہتا۔ کامیابی کے لئے ان کسی انسان میں ان اوصاف کو پیدا کرنا کسی بھی تعلیمی ادارے کے بس کی بات نہیں۔ عملی زندگی ہی ان اوصاف کی معلم ہے۔ لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔ 
سیلف ہیلپ کی کتابوں میں کردار سازی پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ سیمیوئل اسمائلز نے بھی کردار سازی پر غیر معمولی زور دیا ہے۔ آج کی دنیا میں بھرپور کامیابی کے لئے معلومات کو سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ مواد اور معلومات کو بہتر انداز سے پیدا کرنے اور ترسیل میں مہارت رکھنے والوں ہی کو اب کامیابی کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ اسمائلز لکھتے ہیں کہ کسی بھی شعبے میں حقیقی کامیابی یقینی بنانے کے لئے کردار سازی ناگزیر ہے۔ جو لوگ مضبوط کردار کے مالک ہوں، اپنے وعدے کسی حال میں فراموش یا نظر انداز نہ کرتے ہیں اور جو کہہ دیں اس پر عمل بھی کرتے ہوں، لوگ ان پر آسانی سے اور زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ کردار کی بلندی انسان کو حالات سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے اور زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ جدوجہد کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ جن کا کردار بلند نہ ہو وہ اتفاق سے مل جانے والی کامیابی کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سیمیوئل اسمائلز کی کتاب 1850 کے عشرے کے حالات سے بھی مطابقت رکھتی ہے اور آج بھی اس کی اہمیت سے اس لئے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں کامیابی کے آفاقی اور بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال قبل انسان کو بہت سے نفسیاتی پیچیدگیوں کا سامنا نہیں تھا۔ زندگی میں خاصی سادگی تھی۔ تکنیکی ترقی کے جو شاہکار آج ہمارے لئے بالکل نارمل ہیں، تب ان کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ انسان کو بھرپور کامیابی کے لئے جس تحریک کی ضرورت ہوا کرتی ہے اس سے متعلق کتابیں کم کم ہی شائع ہوتی تھیں۔ شخصی ارتقا کا تصور مبہم تھا۔ لوگ غیر معمولی خواہشات کو پروان چڑھانے سے دور دور رہتے تھے۔ سیمیوئل اسمائلز نے ایک ایسی کتاب دی ہے جس کے ذریعے لوگوں کو بہتر زندگی کی طرف بڑھنے کے بارے میں سوچنے کا شعور ملا۔ اسمائلز نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حالات خواہ کچھ ہوں اور کتنے ہی مصائب آئیں، انسان کا کردار متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ شدید خرابی کے باوجود لوگ پرعزم رہے اور حالات کو درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہے۔ اور بالآخر کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ سر ہمفرے ڈیوی کا کہنا تھا ”میں جو کچھ بھی ہوں، اپنی محنت کا نتیجہ ہوں۔ میں یہ بات کسی بھی قسم کے تکبر اور سادہ لوحی کے بغیر کہہ رہا ہوں۔“ جو کچھ سر ہمفرے ڈیوی نے کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی محنت ہی کے بل پر بھرپور کامیابی حاصل کرتا ہے۔ کوئی بھی انسان یومیہ بنیاد پر جو فیصلے کرتا ہے انہی کی بنیاد پر شخصیت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کردار ہمیں کہاں لے جائے گا؟ کیا کوئی شخص بلند کردار کے ساتھ کاروبار کی دنیا میں شاندار کامیابی حاصل کرسکتا ہے؟ کسی بھی معاشرے کو زندہ رکھنے میں اعتبار مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ کاروبار کی دنیا میں بھی وہی لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جن پر اعتبار کرنا مشکل نہ ہو۔ جو لوگ اپنے کہے پر عمل کرتے ہیں ان پر اعتبار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اسمائلز نے اس نکتے پر خاص زور دیا کہ کردار کی بلندی انسان کو عظیم کامیابیوں کے لئے نفسیاتی طور پر تیار کرتی ہے۔ 
بات جب کردار کی آتی ہے تو کسی بھی چیز کی زیادتی سے بچنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ ویسے تو کسی بھی چیز کی زیادتی ذہن اور جسم کو تباہ کرکے دم لیتی ہے، تاہم نشہ آور اشیا اس معاملے میں نمایاں ہیں۔ اسمائلز نے منشیات سمیت تمام معاملات میں اعتدال پر زور دیا ہے۔ بہت سے لوگ یومیہ بنیاد پر رونما ہونے والی ناکامی کا غم بھلانے یا چھپانے کے لئے شراب اور دیگر منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کے لئے صرف خرابیاں پیدا ہوں گی مگر اس کے باوجود وہ جسمانی سکت اور ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے والی اشیا استعمال کرتے ہیں۔ شراب نوشی کو ہر اعتبار سے نقصان دہ سمجھنے والے بھی اسے زندگی کا حصہ اس لئے بناتے ہیں کہ اس کی مدد سے زندگی کے تلخ حقائق سے فرار ممکن ہو جاتا ہے۔ سر والٹر اسکاٹ نے بھی کہا تھا کہ برائیاں تو بہت سی ہیں تاہم شراب نوشی کی نظیر کوئی نہیں لاسکتا۔ 
سیمیوئل اسمائلز نے جب ”سیلف ہیلپ“ لکھی تھی تب برطانوی سلطنت دنیا کے ایک چوتھائی پر متصرف تھی۔ کسی بھی دوسری سلطنت کی طرح برطانوی سلطنت نے بھی بہت سی خرابیاں پیدا کیں۔ اسے زندہ رکھنے کے لئے بعض معاملات میں غیر معمولی نا انصافی بھی دکھائی دی اور بہت سوں کو بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑا۔ اور دوسری طرف اس سلطنت نے روشن خیال سیاسی اصولوں، معاشرتی اصلاحات، غیر معمولی توانائی اور ترغیب و تحریک کا تحفہ بھی دیا۔ برطانوی سلطنت نے ترقی اور نمو کے تصور کو اجاگر کیا اور ثابت کیا کہ کسی واضح مقصد کو ذہن میں رکھا جائے تو ہمہ گیر ترقی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ جان اسٹوارٹ مل نے ”آن لبرٹی“ میں بتایا تھا کہ معاشرے میں ہر طرف کار فرما دکھائی دینے والے اصول دراصل اضافی نوعیت کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اسمائلز نے واضح طور بیان کیا کہ کسی بھی ریاست کے باشندے مل کر جو کچھ کرتے ہیں وہی اس ریاست کی حقیقی دولت ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور ترقی دراصل انفرادی خواہش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب اس کے باشندے ترقی کا سوچیں اور محنت کریں۔ اکیسویں صدی میں بھی حقیقی ترقی کے بارے میں عوام جو کچھ سوچیں گے وہی ان کی ریاست کی ترقی ہوگی۔ ترقی کا آدرش آج بھی انفرادی یا شخصی سطح ہی پر پروان چڑھتا ہے۔ نوجوانی میں اسمائلز بھی سیاسی اصلاحات کے لئے غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے مگر بعد میں انہوں نے محسوس کیا کہ شخصی ارتقا کے شعبے میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس خیال کے بھی حامل تھے کہ انفرادی اصلاح کو یقینی بناکر ہی معاشرے کی اصلاح بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ 
اسمائلز کی کتاب میں خواتین کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اس دور میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی حیثیت منوانے کی بھرپور جدوجہد کا آغاز نہیں کیا تھا۔ اسمائلز نے کتاب کی تیاری کے سلسلے میں جن لوگوں سے بات کی تھی وہ بھی شاید خواتین کے نمایاں معاشرتی اور معاشی کردار کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اگر عملی زندگی میں خواتین کی کامیابیوں کی چند مثالیں بھی شامل کیجاتیں تو ”سیلف ہیلپ“ آج بھی ایک کامیاب کتاب ثابت ہوتی۔ بہر کیف، سیمیوئل اسمائلز کی یہ کتاب آج بھی اس قابل ہے کہ اسے پڑھا جائے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کی تحریک حاصل کی جائے۔  

No comments:

Post a Comment

PLEASE LEAVE A COMMENT