01 قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا - Urdu Jahan

Urdu Jahah is all about URDU

Sunday, April 5, 2020

01 قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا

 قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا

01  قصہ بہتر زندگی کی خواہش کا

………………………………………………………………
1859 میں تین عظیم کتابیں منظر عام پر آئیں۔ چارلس ڈارون نے ”اوریجنز آف اسپیسیز“ (اصل الانواع) شائع کی جس میں یہ اصول بیان کیا گیا تھا کہ ماحول سے غیر معمولی مطابقت پیدا کرنے والی انواع ہی بقا سے ہمکنار رہتی ہیں اور ان کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا رہتا ہے۔ چارلس ڈارون کی اس کتاب نے کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ دنیا بھر میں فطری علوم سے شغف رکھنے والوں کی سوچ پر اس کتاب نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ جان اسٹوارٹ مل نے اپنی مشہور زمانہ کتاب”آن لبرٹی“ شائع کی جس میں آزادی سے مزین معاشرے کی تصویر پیش کی گئی تھی۔ اور تیسری کتاب ”سیلف ہیلپ“ تھی۔ اس کتاب میں سیمیوئل اسمائلز نے ثابت کیا کہ انسان چاہے تو زندگی کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنا سراسر خواہش اور عزم کا معاملہ ہے۔ چارلس ڈارون اور جان اسٹوارٹ مل کی کتابوں کی سی گہرائی اور گیرائی تو اسمائلز کی کتاب میں نہیں تھی، مگر اس کتاب نے شخصی ارتقا کے حوالے سے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ ”سیلف ہیلپ“ نے شخصی ارتقا سے متعلق تحقیق کی راہ ہموار کی اور لکھنے والوں نے اس موضوع پر بھی توجہ دینا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب انسان فطری علوم اور فنون میں تیز رفتار پیش رفت کو یقینی بنا رہا تھا اور اس کے نتیجے میں زندگی کے بیشتر معاملات الجھتے جارہے تھے۔ معاشروں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ لوگوں کو زندگی کے الجھے ہوئے معاملات سلجھانے کے لئے رہنمائی درکار تھی۔ 
وکٹورین عہد کے انگلینڈ میں سیمیوئلز اسمائلز کی کتاب کو انجیل کے بعد مقبول ترین کتاب کا درجہ ملا۔ اس کتاب کو لوگوں نے بڑے پیمانے پر خریدا اور اس میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق زندگی کا بنیادی ڈھانچا بدلنے کی کوشش بھی کی۔ اس کتاب نے انسانی عزم اور حوصلے کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ”سیلف ہیلپ“ سے قبل بنجامن فرینکلن کی خود نوشت اور ہوریشیو الگر کے ناولوں نے انسانی عزم کی داستان عمدگی سے بیان کی تھی۔ اسمائلز نے اپنی کتاب میں نامور شخصیات کے حالات زندگی سے عمدہ مثالیں دیں تاکہ قارئین کو زندگی کا معیار بلند کرنے کی تحریک ملے۔ 
سیلف ہیلپ لٹریچر میں مشہور شخصیات کے حالات زندگی سے ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن کے ذریعے قارئین کے خیالات کی تہذیب ہوتی ہے۔ اسمائلز نے اپنی کتاب میں نامور شخصیات سے متعلق واقعات کو نمونے کے طور پر پیش کیا تاکہ قارئین زندگی میں پیش رفت کو یقینی بنانے کی تحریک پائیں اور بہتر زندگی کے لئے جو کچھ ناگزیر ہے وہ کر گزرنے کا عزم رکھیں۔ سیمیوئل اسمائلز نے سر ولیم ہرشل کی مثال دی ہے کہ انہوں نے کس طور شہر شہر گھومنے والے ایک آرکیسٹرا کے فنکار کی حیثیت سے کام چھوڑ کر فلکیات کے شعبے میں قابل رشک مہارت پیدا کی اور ایک دوربین ایجاد کرکے یورینس اور کئی دوسرے فلکی اجسام دریافت کئے۔ انہوں نے انگلینڈ کے شاہی ماہر فلکیات کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ سر ولیم ہرشل 1738 میں پیدا ہوئے اور 1822 میں ان کا انتقال ہوا۔ 
برنارڈ پیلیسی کو آج بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ ایک غریب برتن ساز تھا جس نے اینمل ویئر بنانے کے لئے گھر کا فرنیچر بھی اپنی بھٹی میں جلا دیا تھا۔ برتن بنانے میں اس کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوجانا اس کے لئے معمولی بات تھی۔ اپنے فن میں غیر معمولی مہارت پیدا کرنے کی بدولت اسے فرانس کے شاہی دربار تک رسائی ملی اور بادشاہ نے بھی اس کے فنکارانہ مہارت کا اعتراف کیا۔ 
گرین ولے شارپ 1735 میں پیدا ہوا اور اس کا انتقال 1813 میں ہوا۔ وہ ایک کلرک تھا مگر اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ اس نے فرصت کے لمحات میں غلامی کی قبیح رسم کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس کی برسوں کی محنت رنگ لائی اور حکومت کو غلامی سے متعلق قانون تبدیل کرنا پڑا تاکہ غلامی کو فروغ دینے والوں کی واضح حوصلہ شکنی ہو۔ 
مشہور اور کامیاب ترین شخصیات کے حالات ہم تک اس لئے نہیں پہنچائے جاتے کہ ہم صرف رشک کریں، بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان سے کچھ سیکھا جائے، کچھ کر گزرنے کی تحریک پائی جائے۔ کسی بھی کامیاب انسان کو ہم اپنے لئے نمونہ بناسکتے ہیں۔ صلاحیت، محنت، استقامت اور تحمل کے ذریعے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہر کامیاب انسان کے حالات ہمیں یہی سکھاتے ہیں۔ 
سیمیوئل اسمائلز اس یقین کے حامل تھے کہ انسان اپنے حالات درست کرنے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے اس لئے ان کی کتاب ہر دور میں کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ مستقل مزاجی اور پوری لگن کے ساتھ کی جانے والی محنت ہر دور میں کامیابی کے بنیادی اصول رہے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں کامیابی کے حوالے سے بنیادی تصور یہ ہے کہ ہر انسان اپنے شعبے میں فن کی بلندی پر نہیں پہنچ سکتا اور یہ کہ جب کوئی شخص جنون کی حد تک اپنے کام سے عشق کرنے لگتا ہے تب اس کا معیار بلند ہوتا ہے۔ سیمیوئل اسمائلز نے اس نکتے پر زور دیا کہ ہر انسان اپنے کام پر بھرپور توجہ دیکر بے مثال کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں صلاحیت کو غیر معمولی اہمیت دینے کا رجحان عام ہے۔ اسمائلز نے اس نکتے پر زور دیا کہ صرف صلاحیت کافی نہیں، محنت اور لگن بھی ناگزیر ہے۔ اور اس سے کہیں بڑھ کر، کم صلاحیت کے ساتھ بھی بھرپور کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ انسان زندگی بھر غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتا ہے۔ اسمائلز نے یہ بھی بتایا کہ بہت سے مشہور فنکار دراصل غیر معمولی صلاحیت کے حامل نہیں تھے، بلکہ انتھک محنت نے انہیں کامیابی اور شہرت کی بلندی پر پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ باصلاحیت ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ ہر انسان کو قدرت نے کسی نہ کسی شعبے میں صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس صلاحیت کو پروان چڑھانا، کارکردگی کا معیار بلند کرنا، مہارت میں اضافہ کرنا اور نفاست پیدا کرنا بھرپور کامیابی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اور اس سے ایک قدم آگے جاکر، بھرپور لگن کے ساتھ محنت کرنا بھی کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔ مائکل انجیلو نے سسٹین چیپل کی چھت پر اپنی فنکاری کے نمونے کسی صورت نہ چھوڑے ہوتے اگر وہ تختے پر لیٹ کر کام کرنے کی مشقت گوارا نہی کرتے! چارلس پنجم کے لئے ”آخری عشائیہ“ تیار کرنے میں ٹیٹین کو سات لگے تھے۔ دیکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شاہکار شاید پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آ گیا تھا۔ 
سر جوشوا رینلڈز اور ڈیوڈ ولکی نے کہا تھا کہ کام کرتے رہنے ہی سے کام بنتا ہے۔ بیچ نے کہا تھا کہ جو شخص پوری توجہ سے محنت کرتا ہے اور مستقل مزاجی ترک نہیں کرتا وہ بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اسمائلز لکھتے ہیں کہ تاریخ کی روایت ہے کہ وہ بھرپور لگن، ارادے اور محنت کو ”نابغہ“ اور ایسے ہی دوسرے مشہور نام دے دیتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

PLEASE LEAVE A COMMENT