ْقاضی اور قصائی - Urdu Jahan

Urdu Jahah is all about URDU

Saturday, April 4, 2020

ْقاضی اور قصائی

 ْقاضی اور قصائی

 ْقاضی اور قصائی

             ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک میں دوبھائی رہتے تھے۔دونوں بھائی پیشے کے لحاظ سے قصائی تھے اوراپنے مُلک سے دورکسی سلطنت میں مِل کرقصائی کا کام کرتے تھے۔کچھ عرصہ کام کرنے کے بعدانہیں اپنے گھر کی یاد آنے لگی،اس عرصے میں دونوں بھائی اشرفیوں کی اِک تھیلی جمع کرچکے تھے۔دونوں بھائی گھر جانے کیلئے اپنے ملک کی طرف چل پڑے۔
                
                 کئی دنوں تک وہ اِک قافلے کے ساتھ سفر کرتے رہے۔سفرکے دوران قافلے نے ایک گاؤں میں پڑاؤ کیا۔دونوں بھائی گاؤں کے بازار میں پھر رہے تھے کہ ایک فقیر نے دونوں بھائیوں کو صدالگائی    ؛اللہ کے نام پہ دے جا بابا‘دونوں نے فقیر کو دیکھا۔فقیراِک بزرگ تھا جو میلے اور پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں اِک   لاٹھی لئے کھڑا تھا۔دونوں بھائیوں کو فقیر پہ ترس آگیا۔انہوں نے اپنی تھیلی سے کچھ اشرفیاں نکال کر اس فقیر کو دے دیں۔بزرگ نے کہا کہ میں بھی کبھی تمہاری طرح دولت مند تھا۔میرے پاس بھی بہت اشرفیاں اور اپنا اچھا گھر تھا۔پھر ایسا زوال آیاکہ میں اب فقیر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔اگر تم ناراض نہ ہو تو کچھ دیر کیلئے اپنی اشرفیوں کی تھیلی مجھے دے دو تاکہ میں اسے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا کر اپنے گزرے وقت کے لمحوں کو یاد کرسکوں۔دونو بھائیوں نے سوچا کہ تھوڑی دیر کی تو بات ہے بیچارے بزرگ کا دل بہل جائے گا۔دونوں بھائیوں نے اشرفیوں سے بھری تھیلی فقیر کو دے دی۔فقیر اشرفیوں سے بھری تھیلی ہاتھ میں تھامے خوش تھااور بچوں کی طرح کھیل رہا تھا۔دونوں بھائی فقیر کو دیکھتے رہے۔جب کچھ وقت گُزرا تو ایک بھائی نے فقیر سے کہا کہ اب ہماری تھیلی واپس کر کرو۔جس پر فقیر نے  جواب دیا کہ کونسی تھیلی یہ تو میری اشرفیاں ہیں جو میں نے بھیک مانگ کرجمع کی ہیں تم لوگ جاؤ۔فقیر کا جواب سُن کر دونوں بھائی حیران وپریشان ہوگئے اور فقیر پر زور دینے لگے کہ مزاق مت کرو ہماری اشرفیاں واپس کرو،ہم نے دیر کردی تو قافلہ نکل جائے گا اور ہم پیچھے رہ جائیں گے ۔فقیرنے کہا کہ جاؤ تمہیں کس نے روکا ہے۔یہ رقم میری ہے جو میں نے محنت کرکے جمع کی ہے اور اب تم لو گ مجھ سے چھیننا چاہتے ہو۔اب فقیر اور دونوں بھائی  آپس میں لڑنے لگے۔انہیں لڑتا دیکھ کر لوگ جمع ہوگئے اورپوچھا کہ کیوں لڑرہے ہو۔ان دونوں بھائیوں نے اپنی رقم کا مطالبہ کیاجبکہ فقیر نے لوگوں سے کہا کہ یہ رقم میری ہے اور یہ دونوں مجھے لوٹنا چاہتے ہیں۔جب لوگوں نے دیکھا کہ تینوں لڑائی سے باز نہیں آرہے تو لوگ انہیں قاضی کے پاس لے گئے۔

         قاضی نے تینوں سے باری باری پوچھا۔جس پر بھائیوں نے کہا کہ یہ رقم ہماری ہے ہم نے اس فقیر کی مدد کی اور اُلٹا یہ ہماری رقم لوٹ رہاہے،جبکہ فقیر نے کہاکہ یہ رقم میری ہے جو میں نے بھیک مانگ مانگ کر اکٹھی کی ہے اور یہ لوگ مجھے لوٹنا چاہتے ہیں۔قاضی نے تسلی سے تینوں کی بات سُنی اور حُکم دیاکہ ایک دیگ میں پانی گرم کیا جائے۔ایک دیگ لائی گئی اسے پانی سے بھر کر نیچے آگ جلا دی گئی۔جب دیگ میں پانی اُبلنے لگا تو قاضی نے کہاکہ اشرفیاں اس اُبلتے پانی میں ڈال دواور آگ بجھا دو۔اشرفیوں کو پانی میں ڈال کر آگ بجھادی گئی۔کچھ دیر بعد جب پانی ٹھنڈ اہوا توقاضی اپنی نشست سے اُٹھا اور دیگ میں ہاتھ مارنے لگا۔پانی سے ہاتھ نکال کر قاضی نے حُکم دیا کہ یہ اشرفیاں اِن دونوں بھائیوں کی ہیں۔اشرفیاں نکال کر اِن کو دے دو،فقیر جھوٹا ہے اس لئے اسے قتل کردو۔اشرفیاں نکال کر دونوں بھائیوں کو دے دی گئیں اور فقیر کو قتل کرنے کے لئے سپاہیوں کے حوالے کر دیا گیا،لیکن لوگ حیران و پریشان تھے کہ یہ کیسا فیصلہ ہے،ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔لوگوں نے قاضی سے سوال کیاکہ آپ کوکیسے علم ہواکہ یہ اشرفیاں اِن بھائیوں کی ہیں؟قاضی نے لوگوں سے کہاکہ اس پانی میں ہاتھ ڈالو۔جب انھوں نے پانی میں ہاتھ ڈالاتوپانی میں گوشت کی چربی کی چکناہٹ تھی،جس سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اشرفیاں کسی قصائی ہیں جو گوشت والے ہاتھوں میں رہیں۔لوگ قاضی کی عقل مندی اور فیصلے سے بہت متاثر ہوئے اور یہ دونوں بھائی اپنی اشرفیاں لے کر قافلے کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ The End

No comments:

Post a Comment

PLEASE LEAVE A COMMENT